Friday, July 13, 2018

Is the criticism valid for the situation on the army?

کیا فوج پر حالات کی پیش نظر تنقید جائز ہے؟

سوال بہت ٹیڑها ہے جس کا جواب میں بہت سیدها دینے کی کوشش کروں گا.

جنرل مشرف کے کڑوے فیصلوں کے بعد فوج نے حکومتی معاملات میں دخل اندازی نا کرنے کی پالیسی اختیار کی جس کا سادہ ثبوت جنرل کیانی ،راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے جمہوریت کی حمایت میں دئیے گئے بیانات ہیں،
ان بیانات کے دوران سیاستدانوں نے کئی بار خد فوج کو اقتدار لینے کی دعوتیں دیں،فوج کو بیانات سے مشتعل کیا،اور اقتدار نا سنبهال لینے پر گالیاں بهی دیں.
لیکن فوج ڈٹ گئ اور اپنے اصول پر قائم رہی.
پهر ایسا ہوا کہ عدلیہ اور نیب نے ان چند کرپٹ سیاستدانوں کا محاسبہ شروع کیا، حسبِ سابقہ ان سیاستدانوں نے فوج سے مدد کی درخواست کی،پر فوج نے اپنے اصول کے تحت سول حکومت اور عدلیہ کے معاملات میں دخل دینے سے انکار کر دیا.
حکمران سیاستدانوں کو ہڈی مل گئ اور انہوں نے اپنی کرپشن چهپانے کے لیے فوج پر ہی بهونکنا شروع کر دیا.

لیکن کیا کہنے اس عوام کے، عوام میں چند حرامی ایسے بهی اٹهے جن کو اپنے گهر میں تو شاید عزت بهی کوئ نا دیتا ہو، وہ فوج پر واہیات بکنا شروع ہو گئے،
پاک فوج پر بهونکنے کو اختلاف رائے کا نام دیا گیا جبکہ فوج وہی کام کرتی ہے جس کی اسے قانون اور حکومت اجازت دیتی ہے،پهر کیوں نا پہلے حکومت کو ٹهیک کیا جائے؟لیکن مجال ہے پٹواریوں کی اس طرف رال ٹپکتی ہو.

اگر سارے معاملات ہی حکومت کے پاس ہوتے ہیں تو حکومتی کارندوں کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ اپنے دفاعی ادارے پر تنقید کریں.

اس ادارے کے سربراہ اپنی عیدیں بارڈرز پر گزارتے ہیں.
یہ ادارہ بارشوں،زلزلوں،حادثوں اور عین حالت جنگ میں رہ کر عوام کی خدمت ایک ماں کی طرح کر رہا ہے.
سیاستدان تو ہمارے لیے اپنی پانچ پانچ سالہ حکومتوں میں پانی کا ایک ڈیم نہیں بنا سکتے.
لیکن شاید ہی کوئ دن گزرے جب پاک فوج کے جوان اس ملک کی عوام کے لیے سر نا کٹواتے ہوں.

تنقید صرف ان پر کریں جو اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں،فوج ہم پر حکومت نہیں بلکہ ہماری حفاظت کر رہی ہے.
یہ فوج ہمارا فخر ہے،ہماری شان ہے اور وطن سے وفا کی علامت ہے.
تنقید کرنے سے پہلے اپنے بیٹے اس ملک کے لیے پیش کرو.

تحریر-#سعیدغالب

No comments:

Post a Comment